بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل، اسلام آباد کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہیکہ بلوچ طلباء بلوچستان اور مُلک کے کسی بھی کونے میں محفوظ و سلامت نہیں ہیں۔ ہر آنے والا دن ریاست کی طرف سے بلوچ طلباء پر ایک نئی مصیبت نازل ہوتا ہے اور ریاستی اداروں نے بلوچ طُلباء کیلئے گھیرہ تنگ کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے ۔ اور کئی عرصوں سے ریاست اپنی انہی پالیسیوں پر قائم ہے ۔
ترجمان نے کہا کہ خداداد سراج بلوچ جو کہ سرگودھا میڈیکل کالج میں پیتھولوجی لیب سائنسز کا طالبعلم ہے، کو سرگودھا شہر کے ایک چوراہے سے 8 مارچ کو جبراً گمشدہ کیا جاتا ہے، اس کے بعد جب دیگر طلباء نے یونیورسٹی انتظامیہ سے اس مسئلہ کے حوالے سے بات چیت کرنے کی کوشش کی تو انتظامیہ کی طرف سے خاطر خواہ جواب نہیں دیا گیا۔ بعد اس کے جب طلباء نے سرگودھا شہر کے پریس کلب کے باہر ایک احتجاج ریکارڈ کرانا چاہا تو وہاں پر ضلعی انتظامیہ نے احتجاج کرنے سے منع کردیا ۔
اور آج جبکہ خداداد کی جبری گمشدگی کو ایک ہفتہ مکمل ہوا ہے تو دیگر ساتھیوں نے یونیورسٹی احاطے میں احتجاجی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تو وہاں پر بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے وہی رویہ اپنایا اور طلباء کو احتجاج کرنے سے منع کردیا گیا۔ اس رویے سے یہی ظاہر ہوتا ہیکہ بلوچ طُلباء کیلئے تمام پُر امن اور سیاسی راستے بند ہیں ۔اس سارے پس منظر سے ایک بات بلوچ قوم اور سب طلباء پر واضح ہوتی ہے کہ ریاست اور اسکے تمام ادارے چاہے وہ تعلیمی ادارے ہوں، انتظامی ادارے ہوں، مسلح ادارے ہوں یا کہ غیر مسلح ادارے ہوں یہ تمام ادارے بلوچ نسل کشی کیخلاف، بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف ایک صفحے پر ہیں اور تمام ادارے ان جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ خداداد سراج بلوچ کی جبری گمشدگی پنجاب و وفاق میں ہونے والا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل امتیاز بلوچ کو بھی اسلام آباد سے جبراً گمشدہ کیا گیا تھا، اور اسکے علاوہ فیروز بلوچ اور اسکے دوست احمد خان بلوچ کو بھی جبراً گمشدہ کیا گیا تھا یہ دونوں طالبعلم ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں، ایک سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن فیروز اور احمد خان کی جان و سلامتی کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات نہیں مل سکیں۔ جن کی بازیابی کیلئے تمام قانونی و آئینی راستوں کو بھی زیر استعمال لایا گیا لیکن ریاست اور اسکے اداروں کی جانب سے کوئی مثبت عمل نہیں دکھایا گیا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ طلباء بلوچستان سے نکل کر پنجاب و وفاق کے تعلیمی اداروں میں اس لئے پڑھنے آتے ہیں تاکہ وہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں، قتل و تشدد سے اپنے آپ کو بچا سکیں، لیکن دوسری طرف ریاست کا جو سلوک و رویہ انہی طلباء کے ساتھ بلوچستان میں کیا جاتا ہے بعینہ وہی رویہ پنجاب و وفاق میں بھی دکھایا جارہا ہے یعنی ، طلباء کی جبری گمشدگیاں، ہراسمنٹ اور پروفائلنگ۔ مگرہم یہ سب پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ ماضی کی طرح اب بھی سخت اقدام لیںنے کیلئے تیار ہیں۔
ترجمان کا آخر میں کہنا تھا سالوں سے جاری ریاستی ظلم و بربریت جن کا بلوچ قوم اور بلوچ طُلباء کو سامنا ہے ہم تمام لوگوں سے یہی امید اور اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری آواز بنیں اور ہمارا ساتھ دیں گے ۔ بی ایس سی، پنجاب کی جانب سے خداداد سراج کی باحفاظت بازیابی کیلئے کیمپین کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں سے درخواست کرتے ہیں وہ اس کیمپین میں بھرپور حصّہ لیں اور ہماری آواز بنیں اور خدا داد کی بازیابی کے لئے ہم بی ایس سی پنجاب کے ساتھ مکمل کھڑے ہیں۔
بلوچ سٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد