پریس ریلیز | Press Release

پریس ریلیز

 

معزز صحافی حضرات !
‎ہم من حیث القوم اور قوم کے زمہ دار ، باشعور طبقہ اور طالب علم ہونے کی حیثیت سے یہ سچائی آپ لوگوں کے سامنے عیاں کرنا چاہتے ہیں کہ کئی دہائیوں سے بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے جس کی گواہی ہم خود دے سکتے ہیں وہاں انسانی روزگارِ حیات سے لیکر بڑے معاملات تک سب میں ریاستی پالیسیوں کا عمل دخل ہے ۔ وہاں کے لوگوں پر ریاستی پالیسی اس قدر سخت ہیں کہ لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے تک کو تیار ہیں اور وہاں کی نجی معاملات سے لیکر تمام تر معاملات میں ریاست کی پالیسی واضح عملی صورت میں کارفرماں ہے۔ ان حالات و واقعات کو ہم بار بار آپ لوگوں تک پہنچاتے ہیں کہ آپ واحد ایک وسیلہ  ہیں جو ان واقعات کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے کیونکہ بلوچستان میں صرف ایک ہی طوطی بولی جاتی ہے ۔  بلوچستان میں انسانی نسل کُش پالیسی جو کہی دہائیوں سے وہاں کے مقامی بلوچ باشندوں پر لاگو ہے لیکن باقی دنیا ہربار کی طرح ہاتھی کی نیند سورہی ہے ان کے دل میں بلوچستان کیلئے کوئی جگہ نہیں بچاہے کہ وہ اس شدتِ درد کو محسوس کریں جو روزانہ کی بنیاد پر ان کے پیاروں کو تاریک زندانوں کی نظر کرتے ہیں ۔ بلوچستان میں اب کوئی بھی محفوظ نہیں ہے اور ریاستی پالیسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ بلوچ کیلئے اس کے اپنے وطن میں گھیرہ تنگ کیا جارہا ہے۔  جہاں کہیں بھی کوئی بلوچ بستا ہے تو وہاں ریاستی مظالم روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ کوہِ سلیمان کے مقامی بلوچوں کی زورِ بندوق پر نکل مکانی یا کہ ڈیرہ بگٹی میں آپریشن ہو۔  جہاں کہیں بھی ہم دیکھیں بلوچ کیلئے بدامنی اور ان کیلئے روزگارِ معاش کو متاثر کرنا، ان سب کا زمہ دار ریاست اور اس کے پیدا کردہ لوگ اور گروہ ہیں جن کو ریاستی اداروں کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ بلوچ صفحہ ہستی سے مٹ جائے اور اپنی قومی وجود کھو بیٹھے۔  ہر روز بلوچستان کے کسی نہ کسی علاقے میں  ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی مثال شاید دنیا میں ملتی ہو۔ آواران سے نجمہ بلوچ کی بہ زور خودکشی ہو یا بالگتر سے احمد خان اور  اس کے ساتھ کمسن بچوں کی ٹارچر سیلوں میں بند ہونا ہو۔ جہاں تک بھی نظر پڑتی ہیں وہاں تک ریاستی ظلم و بربریت اور نسل کش پالیسیاں بلوچ کا پیچھا کررہی ہیں۔ مکُران، جھالاوان ، نصیر آباد، بارکھان اور ڈیرہ بگٹی سے ڈیرہ غازی خان تک ارضِ بلوچ کو بلوچ کیلئے جہنم بنادیاگیا ہے۔ اب بلوچ اس گھٹن زدہ ماحول میں سانس بھی نہیں لے پارہے ہیں ہر جگہ خوف و ہراس کا دھواں ہے جس میں بلوچ کا دم گھٹتا جارہا ہے ۔

‎معزز صحافی حضرات!
‎مزید آپ لوگوں کو باور کرانا ہے کہ بلوچ طُلباء اس خطے کا نہیں بلکہ دنیا کے محروم اور لاوارث ترین طلباء میں سے ہیں۔  ہمارا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ گزشتہ کہی سالوں سے بلوچ طُلباء سیاست کی بیخ کُنی کی گئی اور جَڑوں کو ختم کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ سیاسی شعور کو کھوکھلا اور بے معنی بنانے کیلئے سب سے زیادہ کریک ڈاؤن بلوچ طُلباء رہنماؤں اور کارکنان پر کیا گیا۔ جس کی زندہ و جاوید مثالیں موجود ہیں۔ بلوچ طُلباء کو شعور ، علم و آگہی اور “زانت“ ، اور انکی شعوری و فکری سیاسی تربیت کو دیوار سے لگانے کی حتی الوسع کوشش کی گئی۔  ایک بہت بڑے پیمانے پر بلوچ شعور کو ختم کرنے کی پالیسی پارلیمان پرست کی زیر نگرانی میں کی گئی۔ عطا شاد ڈگری کالج تُربَت کی بندش ہو یاکہ جہاں کہیں بھی ، کسی بھی گلی کوچے میں لٹریچر یا کتاب دیکھایا گیا تو ان کو جلایا گیا اور کتاب کی دکانوں میں تالے پڑ گئے۔ جس کی کمی اب بھی شدت سے محسوس کی جاسکتی ہے۔ اداروں کے اندر کہی طلباء رہنماؤں کو شہید کیا گیا اور اب تک طلباء لیڈرشپ کی بہت بڑی تعداد زندانوں میں مقید ہے۔ اداروں سے لیکر ان کی خاندانوں نے ہر وہ راہ اپنائی جو قانونی و آئینی انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہر اس در پہ کھٹکٹایا جہاں انہوں نے امید کی سحر دیکھی لیکن حسبِ معمول وہی نا امیدی اور مایوسی کا سامنا کیا گیا۔ انہوں نے سخت ترین حالات سے مقابلہ گرمی ہو یا سردی ان حالات سے لڑ پڑے اور بار بار ان کو اداروں کی طرف سے ماسوائے ناامیدی اور دلاسوں کے اور کچھ نہیں مِلا۔  ہر روز بلوچ طلباء چاہے بلوچستان یا بلوچستان سے باہر پنجاب کے اداروں میں زیر تعلیم ہوں لیکن ان کیلئے ہر جگہ زمین تنگ کیا گیا ہے۔ ہر دن ان کو ہراس اور ان کی پروفائلنگ کی جاتی ہے ۔ خوف اور ڈر کا ماحول پیدا کرکے وہ بلوچ قوم کو اندھیروں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ جبری گمشدگی ایک حساس اور طویل المدت مسئلہ بن چکا ہے۔ فیروز بلوچ جن کو راولپنڈی سے اٹھاگیا تاحال کہی احتجاجوں اور کیمپ لگانے کے باوجود وہ واپس  نہیں لوٹے نہ ان کو منظر ِعام پر لایا گیا۔اسی پالیسی کے تحت فصیح بلوچ اور سہیل بلوچ جو بلوچستان یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے ان کو یونیورسٹی احاطے سے  سیکیورٹی اداروں کی طرف سے اٹھا گیا۔ جس کی ردِعمل میں بلوچ طلباء اور بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے کہی لائحہ عمل اپنائے لیکن ہر بار کی طرح پارلیمان میں بیٹھے چند موقع پرستوں کی جھوٹے وعدوں کی بنا پر انہوں  نے احتجاجی کیمپ کو ختم کیا۔ گزشتہ کہی سالوں سے بلوچ
طلباء کو جبری لاپتہ کیا جارہاہے ، کمبر بلوچ ہوں یا احمد بلوچ سب زندانوں کے نظر کیے گیے ہیں۔ ہم بھی ان ہی کی طرح طالب علم ہیں ہمیں بھی خطرات لاحق ہیں۔لیکن حقیقی معنوں میں دیکھیں تو جب تک ہم خود اپنے لئے کھڑے نہ ہوں یا اپنے پیاروں کیلئے آواز نہ اٹھائیں تو کوئی اور ہمارے لیے کیوں آواز  اٹھائیگا۔ بلکہ ہمیں اپنی لوگوں کو خود اپنانا چاہیئے اور ان کاآواز بننا ہوگا۔

‎معزز صحافی حضرات!
‎بلوچ طلباء ان کٹھن حالات سے نبرد آزما ہیں جن سے شاید کوئی اور گزراہو ۔ روزانہ کی بنیاد پر ان کو تنگ کرنا ، جگہ جگہ ان کا پیچھا کرنا اور ان کے دل میں خوف کو وسعت دینے کیلئے ہر اس طریقے کو آزمایا جارہا ہے جن سے کسی انسان کو کس طرح نفیساتی بیماریوں کا شکار بنایا جاسکتا ہے۔  ہر اس حربے کو استعمال کیا جارہا ہے جس سے طلباء نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجائیں اور علمی ماحول سے نکل کر یا تنگ ہوکر اس میدان کو چھوڑ دیں۔ لیکن ہر بار کی طرح بلوچ ان تمام حالات کو دنیا کے سامنے لانے کیلئے کھڑی چٹانوں کی طرح کھڑے رہے ہیں۔ اس بدترین دور اور حالات میں انہوں نے اپنی جُہد و کوشش کو نہیں چھوڑا بلکہ اس جُہد کو مضبوط و محکم بنانے کیلئے تمام طلباء حلقوں میں یہ آگہی پھیلانے کی کوشش کی ہے اور جاری ہے اور جب تک ہم عملی میدان میں ایک نہ ہوجائیں تب تک ایک بھی بلوچ طالب علم محفوظ نہیں رہ سکتا ۔

‎معزز صحافی حضرات!
‎ہم آپ لوگوں کی دل کی  گہرائیوں سے مشکور ہیں کہ آپ ہمیں سن رہے ہیں اور اس امید سے آپ اور ہم یہاں بیٹھے ہیں کہ آپ ہماری آواز بنیں گے ۔ 

ہم پھر بلوچ طلباء قوتوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اس بنا پر یکجا ہوں گے کیوں کہ یہ ایک قومی المیہ اور قومی بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر آج ہم دنیا اور انسانی حقوق کے اداروں کی امید پر بیٹھے کہ وہ آئیں گے اور ہمیں ان مسائل سے نکالیں گے تو ہم اپنی ذہنوں میں خیالی پلاؤ پکا رہے ہیں۔ ہمیں ان حالات سے نمٹے کیلئے خود اپنی آواز بننا ہوگا اور قومی لیول پہ موبلائزیشن کی اشد ضرورت کو پورا کرنا ہوگا۔ یہ مسائل تمام بلوچ طُلباء کو درپیش ہیں۔ ایک  قوم کی حیثیت سے اور وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہمیں اپنی لوگوں میں خود شعور و آگہی پھیلانا ہے اور اپنی مسائل کا حل خود تلاش کرنا ہے اور ہم ہر اس طریقے کو آزمائیں گے جو ہمارا قانونی اور آئینی حق ہے اور اس سے ہمیں کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ دنیا کو اپنی آوازپہنچانے کیلئے ہماری اپنی قومی طاقت اور قومی بنیادوں پر ان مسائل کو اداراتی صورت میں سامنے لانا ہوگا اور ان مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے تمام فورمز کوبھی زیر استعمال لانا ہوگا۔ ہم ذی شعور انسانوں اور دنیا سے یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ ان مسائل کی سنجیدگی سے نوٹس لیں گے ۔ 

بلوچ   سٹوڈنٹس  کونسل (اسلام آباد)

جدید تر اس سے پرانی