یونیورسٹی آف تربت کی جانب سے فیسوں میں بے حد اضافہ علم دشمن پالیسی ہے، یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے کہ اپنا فیصلہ واپس لے. بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد

 پریس ریلیز

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) کے ترجمان نے اپنے بیان میں حالیہ دنوں یونیورسٹی آف تربت کی جانب سے فیسوں میں بے تحاشہ اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں قدرتی وسائل رکھنے والے لوگ نان شبینہ کی محتاج ہیں، اور تعلیمی ادارے انتہائی کم اور نہ ہونے کے برابر ہیں. ایسی صورت حال میں یونیورسٹی آف تربت کی طرف سے فیسوں پر بے تحاشا اضافہ بلوچ طلباء کو تعلیم سے محروم رکھنے کی مترادف ہے۔

ترجمان نے کہا حال ہی میں یونیورسٹی آف تربت انتظامیہ نے فیسوں میں80٪ سے زائد اضافہ کیا ہے، اور ٹرانسپورٹیشن کی فیس جو پہلے 250 روپے تھی، انتظامیہ نے براہ راست اضافہ کرکے 5000 روپے کر دی ہے. ایک کثیر تعداد میں دور دراز علاقوں سے بلوچ طلباء وطالبات یونیورسٹی آف تربت میں حصولِ علم کیلئے آتے ہیں جن کو ٹرانسپورٹ کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے، لیکن طلباء کا ہمیشہ شکایت رہتی ہیکہ بھاری فیس دینے کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ اُنہیں ٹرانسپورٹ کی سہولیات مہیا نہیں کرتی۔

ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ اسٹوڈنٹ الائنس تربت کی جانب سے یونیورسٹی آف تربت کے سامنے احتجاجی کیمپ کا آج تیسرا روز ہے مگر یونیورسٹی انتظامیہ خرگوش کی نیند سو رہی ہے، جوکہ انتہائی تشویشناک اور غیر سنجیدہ عمل ہے۔

 واضح رہے بلوچستان میں شراحِ خواندگی انتہائی مایوس کُن ہے۔ 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 70٪ بچے اسکول سے محروم ہیں، اور 750000 میں سے 60000 بچے بمشکُل میٹرک تک پہنچ پاتے ہیں۔ اب اس طرح کے حالات میں فیسوں کی بڑھوتری ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ قوم کو تعلیم سے دور رکھنے کی غیر اعلانیہ پالیسی ہے۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہیے کہ اپنے فیس بڑھوتری کے فیصلے کو واپس لیکر اپنی علم دوستی کا ثبوت دیں. تاکہ بلوچ طالب علم پُر امن طریقے سے تعلیم حاصل کر سکیں۔

جدید تر اس سے پرانی